Wednesday, 14 June 2023

زندگی دائروں میں چلتی ہے اور سب دائرے ادھورے ہیں

 زندگی دائروں میں چلتی ہے


دل کے نقطے سے درد کی قوسیں

ضبط کے، گرد بادِ حیرت کے

ہجر کی وصل ساز وحشت کے

ان گنت زاویے بناتی ہیں

زخمِ گِریہ کی ستر پوشی کو

گمشدہ گھر کے استعارے کا

اوراک ہمسفر ستارے کا

آسماں بُن لیا ہے آنکھوں نے

معبدِ جاں کی سرد چوکھٹ پر

آگہی کا ہزار پا عفریت

سانس کی آہٹیں نِگلتا ہے

روشنی، زندگی، یقیں، رشتے

سب ہیں ایندھن زیاں کے دوزخ کا

قُرب موہوم کا دُھندلکا ہے

ایک منظر نظر سے ہٹتے ہی

خود کو ہم کب دِکھائی دیتے ہیں

فاصلہ بھی گُماں کا دھوکا ہے

بے سخن موسموں کی مٹی میں

آئینے کی سرشت در آئی

سوچ، آواز، روح، خاموشی

سب کے چہرے ہوا بناتی ہے

ریت ہوتے ہوئے زمانوں کو

یاد کے مرکزے پہ لاتی ہے

زندگی دائروں میں چلتی ہے

اور سب دائرے ادھورے ہیں


ناہید قمر

No comments:

Post a Comment