Wednesday, 14 June 2023

یہ ایک ایسی کالی رات ہے جس کی صبح نہیں

 کالی رات کے نفوس


یہ ایک ایسی کالی رات ہے

جس کی صبح نہیں

ہم کسی ایسے اساطیری سُرنگ سے گزر رہے ہیں

جہاں دور دور تک روشنی آتی نہیں نظر

ہر طرف گُھپ اندھیرا ہے

ہم ٹرین کی بوگیوں میں ڈرے سہمے بیٹھے ہوئے ہیں

روشنی کی کوئی کرن باہر نہ جانے پائے

ہلکی سی روشنی کی چمک پر

اندھیرے کا کوئی غیر مرئی ہاتھ

اچانک آگے بڑھ کر ہم میں سے کسی کو بھی باہر کھینچ لیتا ہے

اور وہ گھپ اندھیرے کا

نیتانت اندھکار کا حصہ بن جاتا ہے

ہمارے کئی ساتھی

ادیب، شاعر اور صحافی

اس کا لقمہ بن چکے ہیں،

راہی ملکِ عدم ہو چکے ہیں

جو ایک بار

اس کے چنگل میں پھنس گیا

وہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آیا

اندھیرا طوفانی رفتارسے ہماری طرف بڑھ رہا ہے

اس کی آسیب نماسونامی لہریں

اپنی گزشتہ لہروں سے زیادہ تیز تر ہوتی جا رہی ہیں

ہم جو کبھی آزاد پنچھی ہوا کرتے تھے

ہوا سے باتیں کیا کرتے تھے

اپنے اپنے قرنطینہ میں بند

گھر گویا چڑیوں کا پنجرہ ہو گیا ہے

اور ہم وہاں اسیر شدہ

سہمے ہوئے خوف کے سائے میں

اپنی باری کے انتظار میں

گھبرائے ہوئے

ہجوم سے کترائے ہوئے

نیم جاں و نا تواں

بیٹھے اپنوں کی موت کا نوحہ پڑھتے پڑھتے تھک گئے ہیں

یہ اندھیرا، آکسیجن جس کی خوراک ہے

وہ انسانوں کے جسم سے

بادِ حیات کا ایک ایک بلبلہ نچوڑ لیتا ہے

آن کے آن میں آدمی کو

مردہ بنا کے چھوڑ دیتا ہے

صبح روشنی کی طلب میں نکلا،جیتا جاگتا انسان

شام ہوتے ہوتے

زندگی سے روٹھ جاتا ہے

زندگی سے منہ موڑ لیتا ہے

ہم ایک نیتانت اندھکار سے گزر رہے ہیں

یہ ایسی طویل رات ہے کہ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی ہے

ہم گھپ اندھیرے کا ایک ایک کر کے حصہ بنتے جارہے ہیں

ہم کہ بے بس و لاچار

ہمارے پاس اس سے مقابلہ کرنے کے لیے

نہیں ہے کوئی ہتھیار

اقتدار پر قابض شاطر اور مکار

ہم معصوم عوام سے کر رہے ہیں بیوپار

سیاست، تجارت، مملکت

سبھی ہوگئیں یکلخت، رفتہ از کار

سبھی بغلیں جھانک رہی ہیں

ہم سب کسی ایسے اساطیری سرنگ سے گزر رہے ہیں

جہاں دور دور تک روشنی آتی نہیں نظر

یہ ایک ایسی کالی رات ہے

جس کی صبح نہیں


پرویز شہریار

No comments:

Post a Comment