اپنی رفتار کا انداز بدل کر دیکھو
خود سے دو چار قد آگے نکل کر دیکھو
آسماں چُھونا کچھ ایسا بھی نہیں ہے مُشکل
اپنی دھرتی سے ذرا اونچا اُچھل کر دیکھو
وسعتیں راستوں میں آنکھیں بچھائے کھڑی ہیں
ذات کے خول سے باہر تو نکل کر دیکھو
پکے رستے سے اُتر کر کسی پگڈنڈی پر
گِر کے دیکھو تو کبھی خود کو سنبھل کر دیکھو
پیر و مُرشد کوئی رستے پہ نہ لائے تم کو
کوئی دن اپنے تفکّر پہ عمل کر دیکھو
ہر قدم دیکھتے رہتے ہو رہِ ہمسفراں
اپنے ہمراہ کبھی تھوڑا سا چل کر دیکھو
برف موسم کے پرندے ہو تمہیں کیا معلوم
کبھی ٭قُقنُوس کی مانند بھی جل کر دیکھو
دوسروں سے رکھے رہتے ہو اُمیدیں جُھوٹی
خود سے بہلاؤ، کبھی خود سے بہل کر دیکھو
یہاں من مرضی کا سانچہ نہیں ملتا بے تاب
اپنی اوقات کے سانچے میں ہی ڈھل کر دیکھو
پرتپال سنگھ بیتاب
٭قُقنُوس: یونانی دیو مالائی قصے کہانیوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ500 سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کے بعد اپنے آپ کو جلا کر خاک کر دیتا تھا اور پھر اسی آگ سے انڈے کی شکل اختیار کر کے دوبارہ جنم لیا کرتا تھا۔
*Quqnoos: (Phoenix or Phenix)
No comments:
Post a Comment