غرض کی اس بستی میں
سب دوستیاں فرضی ہیں
یہ جانتے تو ہم بھی ہیں مگر
پھر بھی بھرم نبھانے کو
ہنس کے سب سے ملتے ہیں
سادہ دلی میں اپنی ہم یہ
سمجھ ہی نہیں پائے کہ
ہم نے آستینوں میں سانپ پال رکھے تھے
ورنہ ہجوم دوستاں میں جتنے کل اکیلے تھے
اتنے ہی آج اکیلے ہیں
لہجوں کی بناوٹ نے وہ گھاؤ دئیے ہیں کہ جو
کسی حرف تسلی سے بھر نہیں سکتے
اک عمر جہاں گزاری تھی
آج وہی دیوار و در اجنبی سے لگتے ہیں
بات گو زرا سی ہے
دل کی آنکھ سے دیکھیں تو
بات بہت ہی گہری ہے
دل ستم رسیدہ کی
رنجیدگی کے لیے تو
اک نگاہِ کج ہی کافی تھی
مگر اب جو دل پر گزری
بات کچھ اضافی تھی
نائلہ راٹھور
No comments:
Post a Comment