Tuesday, 13 June 2023

غرض کی اس بستی میں سب دوستیاں فرضی ہیں

 غرض کی اس بستی میں 

سب دوستیاں فرضی ہیں

یہ جانتے تو ہم بھی ہیں مگر 

پھر بھی بھرم نبھانے کو

ہنس کے سب سے ملتے ہیں

سادہ دلی میں اپنی ہم یہ

سمجھ ہی نہیں پائے کہ

ہم نے آستینوں میں سانپ پال رکھے تھے 

ورنہ ہجوم دوستاں میں جتنے کل اکیلے تھے

اتنے ہی آج اکیلے ہیں

لہجوں کی بناوٹ نے وہ گھاؤ دئیے ہیں کہ جو

کسی حرف تسلی سے بھر نہیں سکتے 

اک عمر جہاں گزاری تھی 

آج وہی دیوار و در اجنبی سے لگتے ہیں

بات گو زرا سی ہے 

دل کی آنکھ سے دیکھیں تو 

بات بہت ہی گہری ہے

دل ستم رسیدہ کی 

رنجیدگی کے لیے تو 

اک نگاہِ کج ہی کافی تھی

مگر اب جو دل پر گزری 

بات کچھ اضافی تھی 


نائلہ راٹھور

No comments:

Post a Comment