وجودِ خاک ہوں لیکن نظر میں آسماں رکھتا
سفر میں ساتھ گر اپنے مجھے تُو جانِ جاں رکھتا
ہزاروں دشت ہوتے بھی، سفر اپنا رواں رکھتا
میں تیرے نقشِ پا کو اپنی منزل کا نشاں رکھتا
تِری یادوں سے گلشن دل کا ہر دم میں جواں رکھتا
"خزاں رُت پر تصور میں بہاروں کا گماں رکھتا"
تِری محفل میں زخمِ دل چھپا لیتا ہوں میں اکثر
سوال اٹھتے کئی تجھ پر اگر اس کو نہاں رکھتا
یہ ضبطِ دل ہے جو اس نے اٹھا رکھا ہے بارِ غم
وگرنہ، بزمِ دنیا میں اسے جا کر کہاں رکھتا
یہ اشکِ بے بہا پل میں بہت کچھ کہ گئے ورنہ
بھنک پڑتی نہ دنیا کو میں دردِ دل وہاں رکھتا
تمہاری راز کی باتیں جہاں بھر میں جو پھیلی ہیں
نہ یہ دن دیکھنا پڑنا مجھے گر رازداں رکھتا
ہوا جب قید پنچھی تو فقط وہ پھڑپھڑایا تھا
زرا سوچو کہ کیا ہوتا اگر وہ بھی زباں رکھتا
عجب پائی ہے شہرت کہ جہاں بھر کا ہوں آوارہ
بھٹکتا در بدر کیوں کر اگر تو میں مکاں رکھتا
پرندے شام ہوتے ہی گھروں کو لوٹ جاتے ہیں
پرندہ وہ کہاں جائے نہیں جو آشیاں رکھتا
تجھے دائم! خدا نے وہ بلند پرواز بخشی ہے
اٹھاتا جو قدم یاں سے تو جا کر لا مکاں رکھتا
ندیم دائم
No comments:
Post a Comment