Saturday 22 July 2023

سلامی ابر فلک کیوں نہ اشکبار رہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


سلامی ابرِ فلک کیوں نہ اشکبار رہے

غمِ حسینؑ میں جب برق بے قرار رہے

لکھا تھا یہ قلمِ موج نے میانِ فرات

کہ پیاسا نہر میں عباسِؑ نامدار رہے

عزیزو چرخِ چہارم پہ ہے علیؑ کی شبیہ

کہ تا ملائکہ کو ہجر میں قرار رہے

اٹھا کے لے گئے لاشِ حسینؑ واں قدسی

کہ یہ بھی واقعہ تا حشر یادگار رہے

بہ زیرِ خاک نہ جب تک کہ وہ ہوا مدفوں

حسینؑ لاشۂ اصغرؑ سے ہمکنار رہے

شگفتہ دیکھ کے زخموں کو کہتے تھے شہداء

یہ وہ چمن ہے کہ جس پر سدا بہار رہے

ہزار حیف کہ جو ہو ابُو تُرابؑ کا لال

زمین پر وہی بے غسل و بے مزار رہے

ق

کہا حسینؑ سے یہ خواب میں سکینہؑ نے

کہ چُھٹ کے آپؑ سے ہم سخت بے قرار رہے

طمانچہ شمر نے مارا، گہر بھی چھین لیا

مدد نہ آپؑ نے کی ہم بہت پکار رہے

مریض بھائی کی منزل میں کچھ دوا نہ ہوئی

کہ پا میں آبلے اور آبلے میں خار رہے

تمہارے لال کا اب حال ہے یہ اے بابا

کہ جیسے قید میں کوئی گناہ گار رہے

ق

کہا یہ بانوؑ نے سجادؑ سے دمِ مدفن

یہ بات یاد مِری اے جگر فگار رہے

اُدھر تو کیجیو اکبرؑ کو اور اِدھر شہؑ کو

پر ان کے بیچ میں اصغرؑ ہی کا مزار رہے

چلے اگرچہ رہِ خار چھوڑ کر عابدؑ

قدم کے چومنے سے پر نہ باز خار رہے

اور اس کے ہاتھ پہ بیعت بھی ہتھکڑی نے کی

اسیری میں بھی یہ سجادؑ کا وقار رہے

ق

حسابِ گریۂ عابدؑ بیان سے ہے زیادہ

کہ ایک جان پہ اندوہ بے شمار رہے

ملا پدر کو جو چالیس دن نہ غسل و کفن

سو اس قلق میں چہل سال اشکبار رہے

سکینہؑ جب تلک آئی نہ قید خانے سے

حسینؑ گلشنِ جنت میں بے قرار رہے

ہوئے نہ دفن شہیدانِ کربلا جب تک

تمام مُردے تہِ خاک بے قرار رہے

ق

کہا حسینؑ سے زینبؑ نے کیجیے انصاف

نہ ماں نہ باپ نہ جدِ بزرگوار رہے

تم ایک بھائی ہو سو تم بھی مجھ کو چھوڑتے ہو

بہن کے دل کو بھلا خاک اب قرار رہے

دبیر ہے وہ عزا خانہ دل مِرا جس میں

ہمیشہ تعزیۂ شاہِ نامدار رہے

سلامت علی دبیر

No comments:

Post a Comment