عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
کڑیل جواں کی لاش پہ آئے حسینؑ جب
قلبِ حسینؑ چاک ہُوا درد کے سبب
کہتے تھے بے وطن کا سہارا نہیں ہے اب
دیکھا سُوئے فُرات پکارے یہ شہؑ کے لب
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
اے بھائی میری آنکھ سے جاتا رہا ہے نُور
غم سے الم سے ہو چکا شبیرؑ چُور چُور
مارا ہے میرے لال کو اعداء نے بے قصور
اُس پہ ستم یہ ہے کہ ہوئے تم بھی ہم سے دور
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
آؤ، ضعیف بھائی کی آ کر مدد کرو
اے کربلا کے دشت کے حیدرؑ مدد کرو
جاگو مِرے دلیر برادر مدد کرو
خیمے میں لاؤ لاشۂ اکبرؑ مدد کرو
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
تم تو مِرے بُلانے سے پہلے ہی آتے تھے
میری ہر ایک بات پہ سر کو جُھکاتے تھے
پلکوں کو اپنی پیروں پہ میرے بچھاتے تھے
سوتے میں سن کے میری صدا جاگ جاتے تھے
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
لاشِ پسر پہ سیدِ مظلومؑ نے کہا
کس وقت میں یہ داغِ جدائی ہمیں دیا
تنہا تِرا پدر ہے ہزاروں ہیں اشقیا
اے لال تم ہی دو ذرا عباسؑ کو صدا
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
ڈرتا ہوں ساتھ برچھی کے دل نہ نکل پڑے
مقتل کی سمت زینبِؑ مُضطر نہ چل پڑے
سُن کر خبر جبیں پہ نہ عابدؑ کی بل پڑے
تم سوؤ شوق سے تمہیں اک پل جو کل پڑے
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
پانی کہاں سے دوں علی اکبرؑ کو مرتے دم
تم لے گئے تھے ساتھ میں مشکیزہ و علم
پانی کے انتظار میں کب تک رہیں گے ہم
جلد آؤ تم کو زینبِؑ مُضطر کی ہے قسم
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
ریحاں غمِ حسینؑ جو غُربت میں سہہ گئے
وہ غم تو انبیاء و فرشتوں سے نہ اُٹھے
عباسؑ کیسے آئے وہ بے دست ہو چکے
آخر حسینؑ تنہا یہ کہتے ہوئے چلے
عباسؑ سوتے کیا ہو ترائی میں چین سے
اکبرؑ کا لاشہ اُٹھ نہیں سکتا حسینؑ سے
ریحان اعظمی
No comments:
Post a Comment