عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
سُنبلِ تر ہے پریشاں زُلفِ اکبرؑ دیکھ کر
کٹ گیا ہے ماہِ تاباں رُوئے انور دیکھ کر
آب ہو جائے گا حُسنِ رُوئے اکبرؑ دیکھ کر
سامنے آئینہ لانا، اے سکندر دیکھ کر
جب چلی اعداء پہ تیغِ شہؑ، پکارے جبرئیلؑ
یا حسینؑ ابنِ علیؑ! خادم کے شہپر دیکھ کر
روتے تھے دشمن بھی شہؑ کو زیرِ خنجر دیکھ کر
خم ہوئی شہؑ کی کمر، ہاتھوں کی طاقت گھٹ گئی
دونوں شانوں سے قلم، دستِ برادر دیکھ کر
کی رسائی بختِ حُر نے جب، تو پہنچا شہؑ کے پاس
آ گیا خود راہ پر جنت کا رہبر دیکھ کر
جب جھپٹ کر بابِ خیبر کو اکھاڑا آپؑ نے
ہو گئے کُفار ششدر، زورِ حیدرؑ دیکھ کر
کربلا کے بن میں جا پہنچے جو شاہِؑ بحر و بر
خوش ہوئے مقتل کو سب انصار و یاور دیکھ کر
مُسکرائے دیکھ کر صحرا کو ہمشکلِ نبیﷺ
تن گئے دریا کو عباسِؑ دلاور دیکھ کر
ہو چکیں جس وقت مُہریں فردِ قتلِ شاہؑ پر
رو دئیے خود شاہؑ اپنے خوں کا محضر دیکھ کر
خاک پر بے دم پڑے ہیں سب عزیز و اقرباء
روتے ہیں شبیرؑ لاشوں کو برابر دیکھ کر
کہتے تھے؛ یہ حلق ہے ناناؐ کا میرے حلق پر
پھیرنا شمشیر او شمرِ ستمگر دیکھ کر
خلد میں یاد آئی جب عباسؑ کو بچوں کی پیاس
رو دیا وہ با وفا بھی سُوئے کوثر دیکھ کر
پیشِ خالق سب ہیں یکساں، رشکِ او غافل نہ کر
آپ کو کم دیکھ کر، اوروں کو برتر دیکھ کر
آسماں پر شرم سے برقِ درخشاں چھپ گئی
ذوالفقارِ حیدرِؑ صفدرؑ کے جوہر دیکھ کر
صُرّۂ خاکِ شفا سے یوں کِھلا تُربت میں دل
جس طرح بلبل ہو بالیدہ گُلِ تر دیکھ کر
کربلا کو ہند سے جاتے اگر ہم اے انیس
شاد ہو جاتے وہ صحرائے منور دیکھ کر
میر انیس
No comments:
Post a Comment