گو کلیجا شبِ فُرقت میں پگھل جاتا ہے
اے غمِ ہجر! تِرا کام تو چل جاتا ہے
دلِ بے تاب سے وہ زلفِ رسا کہتی ہے
جو محبت میں بگڑتا ہے، سنبھل جاتا ہے
ہم کو سوتے سے جگاتے ہیں جگانے والے
قافلہ جب کہ بہت دُور نکل جاتا ہے
جب تِری آنکھ بدلتی ہے ستمگر ہم سے
کیا غضب ہے کہ زمانا بھی بدل جاتا ہے
جب وہ دن رات بُرا کہتے ہیں مجھ کو گُستاخ
میرے منہ سے بھی کوئی لفظ نکل جاتا ہے
گستاخ رامپوری
No comments:
Post a Comment