Wednesday 2 August 2023

میں تو سمجھا تھا کوئی بوڑھا شجر بیچا ہے

 میں تو سمجھا تھا کوئی بوڑھا شجر بیچا ہے

کیا خبر تھی کہ پرندوں کا نگر بیچا ہے

حال مت پوچھ مِرے فاقہ زدہ لوگوں کا

آنکھ بیچی تو کہیں نورِ نظر بیچا ہے

جانے کیسی تھی وہ مجبوری کہ ماں نے اپنا

چند سِکوں کے عوض لختِ جگر بیچا ہے

دوست حیدرؑ کے ملنگوں کی کرامات تو دیکھ

اپنے ہاتھوں سے بنا خُلد میں گھر بیچا ہے

ایسے حالات بھی دیکھے ہیں مسرت میں نے

پہلے بانٹا تھا مگر اب کے ہُنر بیچا ہے


مسرت عباس ندرالوی

No comments:

Post a Comment