میں تو سمجھا تھا کوئی بوڑھا شجر بیچا ہے
کیا خبر تھی کہ پرندوں کا نگر بیچا ہے
حال مت پوچھ مِرے فاقہ زدہ لوگوں کا
آنکھ بیچی تو کہیں نورِ نظر بیچا ہے
جانے کیسی تھی وہ مجبوری کہ ماں نے اپنا
چند سِکوں کے عوض لختِ جگر بیچا ہے
دوست حیدرؑ کے ملنگوں کی کرامات تو دیکھ
اپنے ہاتھوں سے بنا خُلد میں گھر بیچا ہے
ایسے حالات بھی دیکھے ہیں مسرت میں نے
پہلے بانٹا تھا مگر اب کے ہُنر بیچا ہے
مسرت عباس ندرالوی
No comments:
Post a Comment