احباب چھٹے محبوب چھٹے گھر چھوٹ گیا در چھوٹ گیا
جب دل سے تمنا چھوٹ گئی، سب رشتہ ناتا ٹوٹ گیا
اے ساقیٔ بزم کیف حیات اب مجھ کو پیاسا جانے دے
مے جس میں مِری تقدیر کی تھی وہ شیشہ تجھ سے ٹوٹ گیا
گو شیشہ گر قدرت نے بہت ٹوٹے ہوئے شیشے جوڑ دئیے
لیکن یہ ہمارا شیشۂ دل جوڑا نہ گیا یوں ٹوٹ گیا
اس ساز پہ نغمہ اب چھیڑو تو نالہ پیدا ہوتا ہے
موجود ہیں وہ سب تار جو تھے بس ایک نہیں ہے ٹوٹ گیا
ہم روتے ہیں اپنے پیاروں کو اور فطرت ہم سے کہتی ہے
اب اور کھلونوں سے کھیلو جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
وہ راہ میں ہے آنکھوں میں ہے دم اے باد صبا آہستہ گزر
ہیں تار نفس پر ہچکولے اب ٹوٹ گیا اب ٹوٹ گیا
کہتے ہو کہ مانگو جو مانگو بتلاؤ تمہی ہم کیا مانگیں
چاہا تھا کہ مانگیں تم سے تمہیں یہ ہو نہ سکا جی چھوٹ گیا
ہاں سن کہ تجھے تھی ہم سے غرض محتاج نظر تھا حسن تِرا
رکھی رہی شانِ استغناء آخر کو یہ بھانڈا پھوٹ گیا
یہ دل تو وہی دل ہے رضوی آباد بھی تھا ویران بھی ہے
ارمانوں کی اس بستی کو کل ایک مسافر لوٹ گیا
اجتبیٰ رضوی
No comments:
Post a Comment