زمانے سے بغاوت ہے، نہیں تو
مجھے تم سے محبت ہے، نہیں تو
یہ سانسیں اب بھی دیکھو چل رہی ہیں
مجھے تیری ضرورت ہے، نہیں تو
میرا دل ہے کہ بس اب بُجھ چکا ہے
ذرا سی بھی کدُورت ہے، نہیں تو
بھنور میں ناؤ اب تو پھنس چکی ہے
نکلنے کی بھی صُورت ہے، نہیں تو
کہا کس نے میں اس کو پُوجتی ہوں
میرے گھر اس کی مُورت ہے، نہیں تو
سُنا ہے ہاتھ ٹُوٹے ہیں وفا کے
کوئی اس میں حقیقت ہے، نہیں تو
مصروفہ قادر
No comments:
Post a Comment