رنگ دے (گیت)
میری بے رنگی مٹا دے، مجھ کو اپنا رنگ دے
مجھ کو اپنے رنگ میں، تُو میرے سجنا رنگ دے
نیلا نیلا ہے سمندر، نیلا نیلا آسماں
رنگ آفاقی ہے نیلا، مجھ کو نیلا رنگ دے
تیری قدرت اور محبت کے بہت سے رنگ ہیں
گھول کر یہ رنگ سب، تُو میرا چولا رنگ دے
بارشِ انوار میں نہلا دیا ہے صبح نے
اب شفق سے میرے جیون کا اُجالا رنگ دے
رنگوں کی دُنیا میں جو پہچان بن جائے مِری
اے مِرے مولا مجھے، ایسا اچھوتا رنگ دے
ساری دنیا دیکھتی رہ جائے دُلہن کا سنگھار
جو عروسِ زندگی کا ہے دو شالہ رنگ دے
گلشنِ دل کی فضا مہکے، بہاریں جی اُٹھیں
منہ کُھلے رہ جائیں کلیوں کے، وہ کِھلتا رنگ دے
جب مجھے دیکھے زمانہ، تُو دکھائی دے اسے
رنگ میں اپنے جو تُو میرا سراپا رنگ دے
منزلِ مقصود پانے کی نہیں صورت کوئی
کیسے بھٹکوں گا اگر تُو میرا رستہ رنگ دے
پھول کیسر کے کھلا دے، مسکرا اٹھوں گا میں
پھولے گی کھیتوں میں سرسوں، مجھ کو پیلا رنگ دے
آسمانی رنگ میں تو رنگ دے دھرتی مِری
یہ محبت کا ہے دلکش رنگ، دنیا رنگ دے
یہ جو دورنگی ہے دنیا کی، وہ خود مٹ جائے گی
شام کے جو رنگ ہیں، ان میں سویرا رنگ دے
جب مجھے دیکھے یہ دنیا، تُو نظر آنے لگے
رنگ میں تیرے رنگوں میں، مجھ کو اپنا رنگ دے
رنگ جب سمٹے تو دنیا سبز گنبد دیکھ لے
رنگ ہریالی کا ہے، مجھ کو ہرا سا رنگ دے
سرخ، اودہ، نیلا، پیلا، زعفرانی، کاسنی
رنگ سب تیرے، تِری مرضی ہے، جیسا رنگ دے
رنگوں کا میلہ ہے، اس کو اور وسعت بخش دے
رنگ سارے بانٹ، سب کو تھوڑا تھوڑا رنگ دے
ساتھ چلنا ہے تو پھر ہم رنگی ہونی چاہیۓ
رنگ میں چُنری کے تُو، میرا بھی چولا رنگ دے
زندگی کی مانگ ہے اُجڑی ہوئی، افشاں سجا
رنگ و خوشبو بھیج دے، بے رنگ صحرا رنگ دے
اس عمارت کا میں اِک حصہ نظر آنے لگوں
جالی روضے کی سنہری ہے، سُنہرا رنگ دے
صاف کر دے زنگ تو آئینۂ دل کا مِرے
میرے اندر کے جہاں کو صوفیانہ رنگ دے
رنگ پیلا پڑگیا ہے، موسمِ گُل بھیج دے
میں ہوں سوکھا پیڑ، میرا پتا پتا رنگ دے
اپنی بے رنگی سے مجھ کو مل ہی جائے گی نجات
مجھ کو اپنے رنگ میں تُو میرے مولا رنگ دے
عارف معین بلے
No comments:
Post a Comment