آنکھ میں پھیلے کاجل کی مجبوری سمجھا کر
اے دل! پہلے بات ہماری پوری سمجھا کر
قربت کا مفہوم یہی ہے دوسرے لفظوں میں
بال برابر دوری کو بھی دوری سمجھا کر
مفت میں مت بیکار سمجھ ہم فارغ لوگوں کو
سانسوں کی ترسیل کو بھی مزدوری سمجھا کر
دلچسپی ہے اس کو غیر ضروری باتوں میں
تُو بھی اپنے آپ کو غیر ضروری سمجھا کر
دیکھ کے بھی دانستہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا پھر
دیکھنے والی آنکھوں کی بے نُوری سمجھا کر
پھولوں سی مُسکان ہے جس کے کومل ہونٹوں پر
اس کے لمس کی خُوشبو کو کستُوری سمجھا کر
جیسے تیسے بھی گُزرے مسعود غنیمت ہے
رُوکھی سُوکھی کو بھی گھی کی چُوری سمجھا کر
مسعود احمد اوکاڑوی
No comments:
Post a Comment