Monday, 7 August 2023

دل کا کوئی سیلف میڈ آسمان تھا

 دل کا کوئی سیلف میڈ آسمان تھا

نہ اسے کوئی وراثتی زمین ملی 

یہ معرفت کی ہواؤں کا والی ہے

یہ یاسیت کی مملکت کا شہزادہ ہے

جُھومتے جُھومتے رُک جائے

اور چلتے چلتے ہانپنے لگے

کارپوریٹ یا ہارمونل 

جزویات کو کاٹتا عشق کرتے کرتے

کبھی یہ رُخصت پر چلا جائے

تو کبھی سامنے رہتے ہوئے بھی بیکار رہ جائے

اور کبھی ورک فرام ہوم کرتے ہوئے 

ٹارگٹ حاصل کر جائے

اس دل کے پاس بہت سے راز ہیں

بہت سے اندھیرے ہیں

جن کے ساتھ وہ عشرت کی تاویل کرتا ہے

کئی حادثے ہیں اور کئی معرکے ہیں 

جن کے ساتھ وہ جوا کھیلتے ہوئے ہارا ہے 

کئی دھوکے ہیں اور بہت سے سچ ہیں

جن کے ساتھ یہ بہلتا رہا ہے

یہ دل بے قابو قیدی کی طرح ہے

آزادی کا طلب گار ہے 

لیکن قید کو جُھومر بھی سمجھتا ہے 

کبھی کسی محبت کی جُھرمٹ میں چھپ جاتا ہے

اور کبھی کسی نفرت کے کُہرام میں ماتمی بن جاتا ہے

کچھ لمحوں کے لیے یہ کسی کے حوالے ہو جائے

اور پھر حرفِ مدحت پر مشتمل ایک قالین بن جائے

جس پر بیٹھ کر یہ ویزا فری محسوس کرتا ہے

یہ آزادی کے کالے پانی کا قیدی یے

دل کو نسیان نہیں ہے، لیکن یہ بُھول چکا 

قیمتِ دل چہ بود؟


نودان ناصر

No comments:

Post a Comment