ایک دھندلا سا خواب ہے دنیا
در حقیقت سراب ہے دنیا
ہم نے مانا خراب ہے دنیا
پر یہ آخر جناب ہے، دنیا
اے مِرے دل! نہ پھول دنیا پر
اے مِرے دل! حباب ہے دنیا
تجھ کو دنیا کے رنج و غم سے کیا
تیری خاطر گلاب ہے دنیا
یعنی اس کا زوال لازم ہے
یعنی حُسن و شباب ہے دنیا
اس لیے ہوشیار! دنیا سے
اک پرانی شراب ہے دنیا
ایک مطرب ہے حضرتِ انساں
اک شکستہ رباب ہے دنیا
ہے یہ شاداب بھی بہت لیکن
با خدا اک عذاب ہے دنیا
اُس طرف موت کا ہے سنّاٹا
جس طرف کو شتاب ہے دنیا
اِس کا یارم مطالعہ کیجے
زندگی کی کتاب ہے دنیا
کس طرح کا حجاب دنیا سے
خود ہی جب بے حجاب ہے دنیا
وہ ہماری ہی دسترس میں نہیں
ہم کو جو دستیاب ہے دنیا
تم جو شاعر کی آنکھ سے دیکھو
واقعی لا جواب ہے دنیا
نسیم خان
No comments:
Post a Comment