بس اے بہار کے سورج! بڑھا یہ قہر کا رنگ
جلا گئی ہے تِری دھوپ میرے شہر کا رنگ
شجر کو سبز قبا دیکھ کر یہ اُلجھن ہے
کہاں پہ رنگِ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ
کنارِ جوئے رواں جب سے قتل گاہ بنی
ہجوم اُمڈنے لگا دیکھنے کو نہر کا رنگ
ابھی تو میں نے سمندر میں ناؤ ڈالی تھی
یہ کیا ہُوا کہ بدلنے لگا ہے لہر کا رنگ
یہ احتجاج بجا ہے کہ تیز تھی بارش
یہ ماننا ہے کہ کچّا تھا اپنے شہر کا رنگ
گِلہ ہی کیا ہے اگر وہ بھی سبز چشم ہوا
طبیعتوں پہ تو چڑھتا رہا ہے دہر کا رنگ
وہ آج بھی مجھے سوتے میں ڈسنے آئے گا
وہ جانتا ہے کہ کِھلتا ہے مجھ پہ زہر کا رنگ
اُترنے پائے گا قوسِ قزح کا تھام کے ہاتھ
سوادِ حرف میں کب عشقِ بے سپہر کا رنگ
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment