جو پارسا ہیں وہ ہرگز نہ پارسا ہوتے
اگر گناہ کی لذت سے آشنا ہوتے
ہوا کے دوش پہ جو اُڑ رہے ہیں گرد و غبار
اگر زمین پہ ہوتے تو نقشِ پا ہوتے
یہ برگِ سبز جو ہیں چھائوں میں بہاروں کی
خزاں کی دھوپ میں جلتے تو کیمیا ہوتے
جو بندہ ہوکے سمجھنے لگے ہیں خود کو خدا
خدا ہی جانے وہ کیا ہوتے گر خدا ہوتے
دروغ گوئی نے بخشی ہے عافیت اُن کو
جو سچ وہ بولتے تو لائقِ سزا ہوتے
ہمیں تو پیاری بزرگوں کی بات تھی صابر
ہم اُن کی بات پہ کیونکر بھلا خفا ہوتے
حلیم صابر
No comments:
Post a Comment