ہم دشتِ دل کو نقش سے آباد کر سکیں
ملتے رہا کرو کہ تمہیں یاد کر سکیں
خود پر تو ایک عمر سے بس چل نہیں رہا
چڑیا خرید لاؤ کہ آزاد کر سکیں
اشکوں میں ہے سمائی ہوئی ایک جل ہری
اے کاش اس پری کو زمیں زاد کر سکیں
کچھ اور زندہ رہنے کی خواہش ہے ٹھہر جا
یہ کام وہ نہیں جو تِرے بعد کر سکیں
اک شخص ہو ہمارا ہو اور اس طرح سے ہو
آباد کر سکیں جسے برباد کر سکیں
آغازِ دشتِ ہجر میں کچھ دوست تھے مگر
ممکن نہیں کہ اب مِری امداد کر سکیں
اشفاق ناصر
No comments:
Post a Comment