دل کس سے ملنے کی چاہ میں ہوتا ہے
کیوں جنگل میں بھیڑیا شب بھر روتا ہے
کس کو کسی سے ہے امید وفاؤں کی
پانی کب بد رو کا کوئی بلوتا ہے
چاندنی اس کا نور اڑا لے جاتی ہے
رات کو چھت پر جا کر جو بھی سوتا ہے
ہر جذبے کے پیچھے وحشت ہوتی ہے
ہر دریا کی تہ میں صحرا ہوتا ہے
اس نے اونچے پل پر جا کر جمپ کیا
غوطہ خور کا شاید آخری غوطہ ہے
اُجڑے باغ کے دروازے پر پنجرے میں
آخر کس جادوگرنی کا توتا ہے
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment