Monday, 7 August 2023

تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا

 تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا

ہم زمیں زادوں کے سر پر آسماں رہنے دیا

لفظ وہ برتے کہ ساری بات مبہم ہو گئی

اک پردہ تھا کہ حائل درمیاں رہنے دیا

آنکھ بستی نے سبھی موسم مسافر کر دئیے

ایک اشکوں کی روانی کا سماں رہنے دیا

خون کی سرخی اندھیروں میں اجالا بن گئی

ہم نے ہر صورت چراغوں کو جواں رہنے دیا

صد کمال مہربانی پانیوں نے اس دفعہ

کاغذی کشتی کو لہروں پر رواں رہنے دیا

لاکھ کوشش پر بھی گھر کو گھر نہ کر پائے شفیق

اور پھر ہم نے مکاں کو بس مکاں رہنے دیا


شفیق سلیمی

No comments:

Post a Comment