تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا
ہم زمیں زادوں کے سر پر آسماں رہنے دیا
لفظ وہ برتے کہ ساری بات مبہم ہو گئی
اک پردہ تھا کہ حائل درمیاں رہنے دیا
آنکھ بستی نے سبھی موسم مسافر کر دئیے
ایک اشکوں کی روانی کا سماں رہنے دیا
خون کی سرخی اندھیروں میں اجالا بن گئی
ہم نے ہر صورت چراغوں کو جواں رہنے دیا
صد کمال مہربانی پانیوں نے اس دفعہ
کاغذی کشتی کو لہروں پر رواں رہنے دیا
لاکھ کوشش پر بھی گھر کو گھر نہ کر پائے شفیق
اور پھر ہم نے مکاں کو بس مکاں رہنے دیا
شفیق سلیمی
No comments:
Post a Comment