ٹُوٹ چکی ہوں، جوڑ دے سائیں
دُکھ دریا کو موڑ دے سائیں
تجھ بِن کون سہارا ہے گر
ساتھ مِرا تُو چھوڑ دے سائیں
تیرے سوا کسی در پہ جُھکے تو
میرا ماتھا پھوڑ دے سائیں
جس نے میری رُوح کو جکڑا
وہ ہر بیڑی توڑ دے سائیں
تھکنے لگی ہوں ہجر سفر میں
اب منزل پہ چھوڑ دے سائیں
مجھ کو میرا محرم دے دے
قسمت کا رُخ موڑ دے سائیں
اس کے سوا گر خواب بھی آئے
میری آنکھیں پھوڑ دے سائیں
سن میری فریاد یا مجھ کو
میرے حال پہ چھوڑ دے سائیں
عنبرین خان
No comments:
Post a Comment