سفر کو جب بھی کسی داستان میں رکھنا
قدم یقین میں، منزل گمان میں رکھنا
جو ساتھ ہے وہی گھر کا نصیب ہے لیکن
جو کھو گیا ہے اسے بھی مکان میں رکھنا
جو دیکھتی ہیں نگاہیں وہی نہیں سب کچھ
یہ احتیاط بھی اپنے بیان میں رکھا
وہ ایک خواب جو چہرہ کبھی نہیں بنتا
بنا کے چاند اسے آسمان میں رکھنا
چمکتے چاند ستاروں کا کیا بھروسہ ہے
زمیں کی دھول بھی اپنی اڑان میں رکھنا
ندا فاضلی
No comments:
Post a Comment