مخالفت کا نیا اک جواب رکھنا ہے
کہ سنگ و خِشت کے بدلے گلاب رکھنا ہے
رفاقتوں سے تِرا دل بھی بھر گیا ہو گا
تِری خوشی کے لیے اجتناب رکھنا ہے
گئے دنوں کی حقیقت کو روئیے کب تک
سجا کے پلکوں پہ کوئی تو خواب رکھنا ہے
ہمیں ملی ہے یہ تہذیب بھی وراثت میں
اسے دلوں سے لگا کر جناب رکھنا ہے
برائے رختِ سفر دوستوں کی یادوں کو
بچا کے اے دلِ خانہ خراب رکھنا ہے
کبھی تو عہدِ مکافات آئے گا عادل
جگر کے زخم کا گِن کر حساب رکھنا ہے
منظور عادل
No comments:
Post a Comment