Wednesday, 15 November 2023

خزاں کے خوف سے کلیوں کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں

 خزاں کے خوف سے کلیوں کو لرزاں دیکھ لیتا ہوں

ہجوم رنگ و بو میں غم کے طوفاں دیکھ لیتا ہوں

 بُھلا بیٹھا ہوں یاد تلخ ایامِ گزشتہ کی

مگر اب بھی کبھی خواب پریشاں دیکھ لیتا ہوں

تڑپ اُٹھتا ہوں غم سے سینہ چاکانِ گُلستاں کے

گُلوں کو دیکھ کر اپنا گریباں دیکھ لیتا ہوں

گُلوں کی سینہ چاکی، بلبلوں کا دردِ بے تابی

میں ہر پردے میں تیرے جور پنہاں دیکھ لیتا ہوں

در مے خانہ وا ہوتا ہے، واعظ! میں ابھی آیا

ذرا پی لوں تو بحث کفر و ایماں دیکھ لیتا ہوں

جو غرقابی مقدر ہے تو ارماں ہی نکل جائے

ذرا ہٹ نا خدا! میں زور طوفاں دیکھ لیتا ہوں

مِری خودداریاں جینے نہیں دیتیں مجھے قیصر

مگر بندہ ہوں اس کا جس کو انساں دیکھ لیتا ہوں


عبدالصمد قیصر

No comments:

Post a Comment