Saturday, 18 November 2023

تلخ کر لیں زندگی کیوں فکر‌ مستقبل سے ہم

 تلخ کر لیں زندگی کیوں فکر‌ مستقبل سے ہم

باز آئے اس جنون سعیٔ لا حاصل سے ہم

یہ حرم یہ دیر یہ ہوش و خِرد کی گمرہی

ہر قدم کچھ دور ہی ہوتے گئے منزل سے ہم

انتہائے شوق میں ڈوبے ہوئے کھوئے ہوئے

تیری محفل میں بھی کتنی دور ہیں محفل سے ہم

حسرت ساحل بھی تھی طوفاں سے جب تک دور تھے

ڈوب کر ابھرے تو اب بیزار ہیں ساحل سے ہم

یہ مسلسل بے حسی،۔ افتادگی،۔ فرسودگی

خوب ہیں طوفاں میں قیصر دورئ ساحل سے ہم


عبدالصمد قیصر

No comments:

Post a Comment