دل تو اک شخص کو نخچیر بنانے میں گیا
ساز دل نغمۂ دل گیر بنانے میں گیا
رات اک خواب جو دیکھا تو ہوا یہ معلوم
دن بھی اس خواب کی تصویر بنانے میں گیا
پرتوِ خانۂ موہوم غنیمت تھام مگر
وہ بھی اک نقشۂ تعمیر بنانے میں گیا
روح تو روح ہے کچھ بس نہیں اس پر لیکن
یہ بدن خاک کو اکسیر بنانے میں گیا
یار تو درہم و دینار بنانے میں گئے
اور میں عشق کی جاگیر بنانے میں گیا
شعر تاثیر سے خالی ہوا وقت تعبیر
نفس مضمون بھی تقریر بنانے میں گیا
مہتاب حیدر نقوی
No comments:
Post a Comment