Friday, 17 November 2023

اے محمد اے سوار توسن وقت رواں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے محمدﷺ، اے سوارِ توسنِ وقتِ رواں

اے محمدﷺ، اے طبیبِ فطرت و نباضِ جاں

اے محمدﷺ، اے فقیہِ نفس و نقادِ جہاں

موت کو تُو نے وہ بخشی آب و تابِ جاوداں

زندگانی کے پجاری موت پر مرنے لگے

لوگ پیغامِ اجل کی آرزو کرنے لگے

خلق کو تُو نے تمنائے شہادت بخش دی

اِس تمنائے شہادت نے شجاعت بخش دی

پھر شجاعت نے پھبکنے کی حرارت بخش دی

اِس حرارت نے گداؤں کو حکومت بخش دی

اِس قدر عجلت سے تُو رُوئے زمیں پر چھا گیا

مدّعی چکرا گئے، تاریخ کو غش آ گیا

سب سے پہلے دہر کو تُو نے ہی سمجھائی یہ بات

طاقِ ایوانِ شہادت میں ہے قندیلِ حیات

سر فروشی ہے متاعِ زندگانی کی زکات

موجِ کوثر کی سخا کا پیک ہے نخلِ فرات

عرش اُتر آتا ہے فرشِ گرمِ گیر و دار پر

رقص کرتی ہے دوامی زندگی تلوار پر

موت کی ظلمت میں تُو نے جگمگا دی زندگی

جوہرِ شمشیرِ عریاں میں دِکھا دی زندگی

شمع کے مانند قبروں میں جلا دی زندگی

سرزمینِ مرگ میں تُو نے اُگا دی زندگی

حبس ٹوٹا باغِ جنت کی ہوا چلنے لگی

مقبروں سے دِل دھڑکنے کی صدا آنے لگی

خاک کے ذرّات کو تُو نے ثریاّ کر دیا

آگ کو پانی کیا، پانی کو صہبا کر دیا

موت سی کالی بلا کو رشکِ سلمیٰ کر دیا

آخری ہچکی کو گل بانگِ مسیحا کر دیا

سر سے خوفِ نیستی کی یوں بلائیں ٹال دیں

آدمی نے موت کی گردن میں باہیں ڈال دیں

یہ تصوّر موت کا جیسے ہی سُوئے کربلا

وقتِ دوں پرور کے تاریخی تقاضے سے مڑا

خون میں تیرے گھرانے کے تلاطم آ گیا

لشکرِصبحِ فروزاں شام کی جانب بڑھا

دفعتاً قصرِ جفا مسمار ہو کر رہ گیا

رعبِ شاہی نقش بر دیوار ہو کر رہ گیا

اے محمّد موت وہ تیرے نواسے کو ملی

آج تک جس سے درخشاں ہے ضمیرِ آدمی

اللہ اللہ روشنی تیرے چراغِ ذہن کی

کربلا کی دھوپ پر چھٹکی ہے اب تک چاندنی

یہ انی پر سر نہیں تیری انا کا تاج ہے

کربلا تیرے نظامِ فکر کی معراج ہے


جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment