صبر کریں گے جب تک عشق نہیں ہوتا
دیکھیں اس کو کب تک عشق نہیں ہوتا
شرکت کچھ تو لازم ہے مطلوب کی بھی
طالب کے مطلب تک عشق نہیں ہوتا
اس کے بعد اماوس بھی تو پڑتی ہے
پورے چاند کی شب تک عشق نہیں ہوتا
دل دریا میں غوطے کھانے پڑتے ہیں
دیکھو لب سے لب تک عشق نہیں ہوتا
ہم تو جانے کب کے جل کر خاک ہوئے
لیکن ان کو اب تک عشق نہیں ہوتا
چہرے کی ساری رونق اڑ جائے گی
ہنستے رہیے جب تک عشق نہیں ہوتا
معین شاداب
No comments:
Post a Comment