Saturday, 18 November 2023

کاسے میں ایک فقیر کے رکھا گیا مجھے

 کاسے میں ایک فقیر کے رکھا گیا مجھے

صدقہ سمجھ کے دل سے اُترا گیا مجھے

اک عشق رفتہ رفتہ ہنستا گیا مجھے

اک ہجر اپنے آپ میں کھاتا گیا مجھے

مثلِ گُلاب شاخ سے توڑا گیا مجھے

پھر یوں ہُوا، کتاب میں رکھا گیا مجھے

مجنوں نے میرے صبر و تحمل کو داد دی

اتنا ہجوم عام میں پرکھا گیا مجھے

لوگوں میں ہو رہی ہیں بہت چہ میگوئیاں

شاید کسی مزار پہ دیکھا گیا مجھے

صحرا نے اپنے دامن وسعت میں دی پناہ

تنہائیوں کا شور بساتا گیا مجھے

رنج و الم نے قوتِ بینائی چھین لی

دُنیا خیالِ یار بُھلاتا گیا مجھے

مُردہ تیرا وجود ہے زندہ ہے تیرا نفس

کاندھا ہلا ہلا کے بتایا گیا مجھے

محور! میرا وجود اسی میں ملا دیا

جس خاک مُشت بھر سے بنایا گیا مجھے


محور سرسوی

No comments:

Post a Comment