ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے
زمیں پہ پاؤں نہ تھے احتیاط کیا کرتے
شراب نام ہے خود ساختہ تغافل کا
خرد کو آگ لگی تھی نشاط کیا کرتے
جو ہم نشیں تھے گُل و خار کہہ دیا، ہمسر
فریبِ عہد ہے یہ، بے بساط کیا کرتے
قدم قدم پہ نئے گُل کُھلا رہی ہے ہوس
حیا سے گڑ گئے ہم انبساط کیا کرتے
رچائے بیٹھے ہیں ہو موڑ پر جو عشق کا ڈھونگ
جُنوں کو عقل سے کیا ارتباط کیا کرتے
گِراں ہیں گوش، نظر میں ضرر، خِرد میں فساد
تلاشِ طُور، دمِ انحطاط کیا کرتے
خمیرِ نُورِ ولایت ہے ان کی طینت میں
پھر آب و گل سے رشید اختلاط کیا کرتے
رشید ترابی
No comments:
Post a Comment