Wednesday, 15 November 2023

اے جان وفا اب تو ہی بتا

 اے جان وفا اب تُو ہی بتا


یاد تمہاری جب آئی دل میں آیا گیت لکھوں

ساون کے سنہرے موسم میں تیری اک تصویر لکھوں

زلفین تمہاری شام لکھوں، باتوں کو سنگیت لکھوں

کچھ اور بتا اے جانِ وفا میں تجھ کو کیا کیا چیز لکھوں

صبح بنارس تیرا چہرہ، زُلفیں اودھ کی شام لکھوں

گالوں کو شفق آنکھوں میں چمک، ہونٹوں کو شرابی جام لکھوں

مصری کی ڈلی پھولوں میں پلی، کچی کلی کشمیر لکھوں

کچھ اور بتا اے جانِ وفا میں تجھ کو کیا کیا چیز لکھوں

تُو لیلیٰ ہے شیریں بھی تُو، تُو ہیر ہے اور جُولی بھی تُو

عشق و وفا کے نغمے تیرے، سب شاعر کی غزلیں تُو

ہے تاج نشانِ حُسن تیرا، میری بھی محبوب ہے تُو

کچھ اور بتا اے جانِ وفا میں تجھ کو کیا کیا چیز لکھوں

اے جانِ وفا، یہ حُسن بجا، تعریف بجا، توصیف بجا

یہ رنگ بجا، یہ رُوپ بجا، سنگیت بجا، سب گیت بجا

غم اور بھی ہیں دنیا میں مگر اے جانِ وفا اس غم کے سوا

اے جان وفا اب تُو ہی بتا میں کیسے تیری توصیف لکھوں

اب وہ نہ سنہری دھوپ رہی، اب وہ نہ رو پہلی شام رہی

برگد نہ رہے، ساون نہ رہا، نا پہلے جیسی سانجھ رہی

دولت کی بھکارن دنیا کو، نفرت کی پجارن دنیا کو میں کیسے تمہارے نام لکھوں

اے جان وفا اب تُو ہی بتا میں کیسے تیری توصیف لکھوں

یہ زاغ و زغن کی بستی ہے، اب ناگ یہاں پر پلتے ہیں

گِدھوں کا بسیرا چاروں طرف، اب چِیل یہاں پر پلتے ہیں

انسان سے خالی دنیا ہے، میں کیسے تمہارے نام لکھوں

اے جان وفا اب تُو ہی بتا میں کیسے تیری توصیف لکھوں

یاں حُسن ہے عُریاں چاروں طرف، دِیدوں میں ہوسناکی ہے بھری

ناپاک نگاہِ ساقی ہے، زاہد کا بھی دامن پاک نہیں

سب سانڈ کُھلے ہیں اب اور تجھے کیا اور لکھوں

اے جان وفا اب تُو ہی بتا میں کیسے تیری توصیف لکھوں

اے جانِ ادا اب چل کے بسیں اب اور کسی دنیا میں چلیں

جہاں نفرت کی دیوار نہ ہو، جہاں اُلفت کا بیوپار نہ ہو

جہاں شیطاری ہرکار نہ ہو، جہاں ابلیسی سنسار نہ ہو

جہاں خون نہ ارزاں ہو اتنے جہاں ایٹمک ہتھیار نہ ہو

اے جانِ ادا اب چل کے بسیں اب اور کسی دنیا میں چلیں

جہاں جھرنے گیت سناتے ہوں، جہاں راگ چھڑی ہو بلبل کی

جہاں کوئل کُو کُو کرتے ہوں، کھٹکا نہ اسے ہو شکاری کی

جہاں پیار کی دیوی رہتی ہو، دستور لکھی ہو اُلفت کی

اے جانِ ادا اب چل کے بسیں اب اور کسی دنیا میں چلیں

پر یہ تو بتا؟ وہ ملک کہاں؟ وہ دیش کہاں؟

پردیش کہاں؟ اے جانِ وفا وہ دیش کیا؟

اے جانِ ادا اب چل کے بسیں اب اور کسی دنیا میں چلیں


قیصر جمیل ندوی

No comments:

Post a Comment