Friday 15 December 2023

لگنا بنتا تو نہیں مہر مگر لگتا ہے

 لگنا بنتا تو نہیں مہر مگر لگتا ہے

مجھ سے انسان کو بھی رات سے ڈر لگتا ہے

اس کو رکھوں گا چُھپا کر میں کتابِ دل میں

وه مجھے مور کا ٹُوٹا ہوا پر لگتا ہے

مِرے جیسوں کو ڈبو دیتی ہے جب بھی چاہے

آپ کی آنکھ پہ دریا کا اثر لگتا ہے

اس کے رونے پہ اُجڑ جاتی ہیں ساری فصلیں

اور ہنستا ہے تو پیڑوں پہ ثمر لگتا ہے

ایک رائے نہیں دیتا کوئی اس کے بارے

پُھول لگتا ہے کسی کو وه قمر لگتا ہے

بعد میں راہ کی دُشواریاں کُھلتی ہیں مہر

شعر پہلے تو قدم بھر کا سفر لگتا ہے


مہر فام

No comments:

Post a Comment