لگنا بنتا تو نہیں مہر مگر لگتا ہے
مجھ سے انسان کو بھی رات سے ڈر لگتا ہے
اس کو رکھوں گا چُھپا کر میں کتابِ دل میں
وه مجھے مور کا ٹُوٹا ہوا پر لگتا ہے
مِرے جیسوں کو ڈبو دیتی ہے جب بھی چاہے
آپ کی آنکھ پہ دریا کا اثر لگتا ہے
اس کے رونے پہ اُجڑ جاتی ہیں ساری فصلیں
اور ہنستا ہے تو پیڑوں پہ ثمر لگتا ہے
ایک رائے نہیں دیتا کوئی اس کے بارے
پُھول لگتا ہے کسی کو وه قمر لگتا ہے
بعد میں راہ کی دُشواریاں کُھلتی ہیں مہر
شعر پہلے تو قدم بھر کا سفر لگتا ہے
مہر فام
No comments:
Post a Comment