Friday 15 December 2023

سفر میں باد مخالف فقط بہانہ تھا

سفر میں بادِ مخالف فقط بہانہ تھا 

اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا 

نظر سے ہو گیا اوجھل وہ تب یہ ہوش آیا 

صدائیں دینی تھیں اُس کو اُسے بلانا تھا 

کِیا تھا قلزمِ غم قید اُس ایک قطرے میں 

وہ ایک اشک جو ہم کو نہیں بہانا تھا 

ہے یہ بھی دَور کے نیندوں سے خواب رُوٹھے ہیں 

کُھلی نگاہ دے دیکھے تھے، اک زمانہ تھا 

کسی کے ہجر میں جینے کی جرأتیں کی تھیں 

ہمارے دل کا رویہ بھی جارحانہ تھا 

رہی وفا کو کبھی جس کی رہبری پیاری 

اُسی کس اپنا ہر اک نقشِ پا مِٹانا تھا


ز ر وفا

زویا راؤ وفا

No comments:

Post a Comment