Friday 15 December 2023

نفرتیں دندناتی ہوئی چار سُو

زندگی


 نفرتیں دندناتی ہوئی چار سُو

قتل و غارت گری کا نیا دور ہے

لالہ زاروں کو کیکر کی چھاں کھا گئی

تتلیاں زخم خوردہ بلکنے لگی

جگنوؤں میں بھی اک خوف کی لہر ہے

خار، اب کے برستے ہوئے باغ میں

فاختاؤں کے سر بھی سلامت نہیں

کوئلوں کے بھی نغمیں سنائی نہ دیں

پُر ہیجاں بستیاں، شور کرتی سڑک

موت پھرتی ہوئی چار سُو بے دھڑک

آدمی آدمی سے ہے سہما ہوا

زندگی زندگی سے ہے دہکی ہوئی

کھوکھلی بدمزہ، بے وجہ سی ہنسی

طنز و دشنہ لیے بد نما قہقہے

اضطرابِ نہاں، بے کراں بحر ہے

مُسکراہٹ میں بھی، کس قدر زہر ہے

خوش بیانی میں بھی قہر ہی قہر ہے

وحشتیں ہیں کہ سرسر سے اک شور سی

چار سُو مُسکراتی ہوئی بہہ رہی

پا بجولاں اسیروں کے دُکھ درد کی

بے قراری کی کس کو خبر ہو بھلا

ہر طرف جیل خانہ ہے اک جیل میں

جیل اپنی طوالت کی حد کر گئی

قید خانے میں اندر بھی ایک قید ہے

اس سے بڑھ کے پرے بیڑیاں ہیں پڑی

بیڑیوں کے بھی اندر ہیں کچھ بیڑیاں

جس کے اندر ہے ذہنوں کو جکڑا ہوا

ایسے ذہنوں کے اندر بھی اک ذہن ہے

جس کو جھکڑے ہوئے جسم و جاں سے پرے

اپنے جھکڑے ہوئے اس بیاں سے پرے

اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا

ایسی منجھدار میں آ پھنسا ہے کہ اب

اس کو رستہ کوئی بھی سُجھائی نہ دے

جاہ بہ جا، کُو بہ کُو اک تعفّن سا ہے

کچھ آوازیں جو اس شور میں بھی کہیں

اک تسلسل سے بہتی ہوئی آ رہی 

وہ آوازیں جو اس شور و غُل میں بھی اب

پہریداروں کی نیندوں میں رخنہ بنیں

ٹھیکیداروں کے خوابوں میں ہیبت بھریں

اس تعفّن کے آنگن میں خُوشبو بنے

اس غلاظت کو تطہیر کی راہ دیں

کوچۂ حکمراں کیوں ہیں لرزاں بھلا

اب سماعت بھی اک جُرم سا بن گئی

ساعتوں پہ بھی پہرے سے لگنے لگے

روز و شب اذیتوں میں اضافہ کریں

نارسائی کا عالم کہ حد ہو گئی

چند روپوں کے بنا گام تک نہ اُٹھے

مُفلسی اپنی دہلیز پر مر مِٹی

چاند آنگن میں آنے سے مُنکر ہُوا

وہ ہیں آدب کہ ادب بھی نہ رہا

وہ ہیں افکار کہ فکر تک نہ رہی

زندگی مُفلسوں کی ہے دُشنام سی

اور یہ عشرت کدوں کی ہی لونڈی بنی

مُعبدوں میں بھلے اب چراغاں کرو

پیر خانوں میں نغمہ سرائی رہے

زندگی عہدِ کُہنہ کا ماتم نہیں

زندگی کے کچھ اپنے قوانین ہیں

وہ جو جہدِ مُسلسل کے عادی رہے

وہ جو لے کے لگن زندگی کی چلے

سینۂ کوہ و سنگ چیر ڈالا گیا

ان طوفانوں کو پھر منہ کی کھانی پڑی

زلزلے آندھیاں سب شکستہ ہوئے

سینہ تانے ہوئے وہ جو ڈٹ سی گئی

وہ جو لڑتی رہی ہار مانی نہیں

مِٹ گئی ہو بھلے، زندگی تھی وہی

سینہ تانے ہوئے جو ہے بچ کے کھڑی

اس کو حق ہے جیۓ زندگی ہے یہی


سین ساقی

No comments:

Post a Comment