Thursday, 14 December 2023

یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیا کر رہے ہو

 یہ کیا ہو رہا ہے؟


یہاں اس خیالی ثقافت کے بخیے

اُدھڑ سے گٸے ہیں

یہاں تیرگی اپنے قد کاٹھ سے

آگے بڑھنے لگی ہے

یہاں پر قدامت نے جِدت سے مِل کر

عجب ظُلم کرنے کی ٹھانی ہوٸی ہے

یہاں پر وہ ماٸیں جنم لے رہی ہیں

جو اپنے ہی بچوں کو کھانے لگی ہیں

یہاں باپ اپنی جواں سال بیٹی کو

شہوت کے نوکِیلے دانتوں سے

چھلنی کِیے جا رہا ہے

یہاں بھاٸی بہنوں کی

عصمت پہ خطرے کی صُورت

گھروں پہ ہی منڈلا رہے ہیں

یہاں سات دن کی کوٸی ننھی گڑیا

جو اپنے ہی بابا کی وحشت کے ہاتھوں

لہو میں نہاٸی ہوٸی پُوچھتی ہے؛

یہ کیا ہو رہا ہے؟

یہ کیسی ثقافت کا گڑھ ہے جہاں پر

کہیں بھی، کوٸی بھی، جہاں، جب کبھی بھی

جو چاہے تو جِیون پہ حملہ کرے گا

جو کونپل بھی پُھوٹے گی، مَسلے گا اُس کو

کہیں گُل کِھلے گا تو نوچے گا اُس کو

کہیں سوچنے پہ بھی پہرے لگیں ہیں

کہیں قدغنیں ہیں کہ بولے نہ کوٸی

زمیں بانٹنے کا یہ کیا ماجرا ہے؟

وہ پنچھی، وہ پربت، وہ کوٸل، وہ نغمے

وہ مہکی ہوٸی مست و بے خُود ہواٸیں

وہ پُھولوں کی رنگت، وہ کلیوں کی خُوشبو

چکوری کا جھومر، وہ چندا کے درشن

وہ برکھا، وہ بادل، وہ سُورج کی کرنیں

کہاں کھو گٸی ہیں؟

جو ہم نے ابھی تک تو دیکھی نہیں ہیں

فقط چند لفظوں کی صُورت

کتابوں کے پَنوں پہ اپنا ہی مُنہ تک رہی ہیں

یہاں کارخانوں کا گندہ دُھواں ہے

یہ کیسا عجب تعمیراتی جنُوں تھا؟

یہ کیسی ترقی ہوٸی ہے کہ جس میں؟

یہاں کھیت و کِھلیاں اُجاڑے گٸے ہیں

یہاں کوکھ دھرتی کی بنجر ہوٸی ہے

یہاں شہر، خانۂ وحشت بنے ہیں

یہاں بُھوک گھر گھر میں بانٹی گٸی ہے

کوٸی پُوچھنے کی جسارت کرے گر

یہ کیا ہو رہا ہے؟

تو پھر یہ نحوست بھرے چند چہرے

عداوت، رعونت کی شِدت میں جلتے

اسی سینۂ جاں پہ چڑھ دوڑتے ہیں

مگر یہ آوازیں جو اس آہنی

گڑگڑاہٹ تلے دفن کر دی گٸی ہیں

ابھی جی رہی ہیں

پہاں اک تمنّا کہ زندہ ہے اب تک

یہاں کچھ اُمیدوں کے پتے ہرّے ہیں

وہ اک بدگُمانی بھی اپنی جگہ ہے

مگر یہ جو اُلجھن کہ بوٸی گٸی ہے

اسے کاٹنے کا سمے آ گیا ہے

یہ باڑیں جو پیوست کر دی گٸی تھی

جو راہوں میں کانٹے سجائے گٸے تھے

جو بے پر کی یوں ہی اُڑاٸی گٸی تھی

اسے چھاٹنے کا سمے آ گیا ہے

وہ جن جن سوالوں پہ پابندیاں تھی

وہ سب پُوچھنے کا سمے آ گیا ہے

سمے آ گیا ہے کہ پُوچھیں میاں ہم

یہ کیا کر رہے ہو؟

یہ کیا ہو رہا ہے؟


سین ساقی

No comments:

Post a Comment