میں روز دیکھتا ہوں آئینہ
میرے چہرے پر جو بخت کی سیاہی ہے
میرے نہیں کسی اور کے کرموں کی سزا ہے
مجھ سے پُوچھا جو ہوتا میری تخلیق سے پہلے
میں اپنے تخلیق کے مقصد کا سوال پُوچھتا
اپنے بخت کی ساری تحریر پر معترض ہوتا
مگر ایسا نا ہُوا کہ سوال ہوتے
میں نے آنکھ جو کھولی تو میرے اطراف
میرے ہی جیسے سیاہ بخت سارے کے سارے
اپنی تخلیق کے ہر اک سوال پر خاموش
مُقدر کو کوستے کہتے تقدیر کو برحق
زندگی کے حق سے محروم عابد و زاہد سارے
نظمِ زیست میں معاش کے مارے
پہلے ضرورت کے ہر خُدا کو پُوجتے
پھر نِدامت کے خُدا سے معافیاں مانگتے
لاچار و بے بس مگر صدیوں سے مُسلسل
خُود کی خطا کے معترف اور کاتِب پر قناع
اپنے اندر کے سوال سے نالاں یہ زِنداں کے قیدی
سب ہی آئینہ دیکھتے ہیں، مگر
تفریق سوال کی ہے، ممتاز جواب سے ہوں
آگہی کے سب مرحلے نا سہی، مگر جانتا ہوں
جُرم میرا نہیں ہے؛ میں تخلیق ہوا ہوں
مجرم میں ہوں کہ میرا خالق نہیں ملتا
عاصم غزن
No comments:
Post a Comment