کور چشمی کے قید خانے میں
گُونگی دہلیز پر دِیے رکھ کر
چاہتے ہیں کہ روشنی بولے
خُون کس طرح کام آتا ہے
میرے قاتل کی تشنگی بولے
قتل گاہوں سے دھجیاں چُن کر
وقت کُنت علم بناتا ہے
کور چشمی کے قید خانوں میں
زخم کتنے دِیے جلاتا ہے
ہر نئے سال کے حوالے سے
بس سحر کو سلام کرتے ہیں
جس پہ سُورج کا نام لکھا ہے
اس نگر کو سلام کرتے ہیں
ہم سلاخوں سے جھانکنے والے
ہم بھی سُورج کی راہ تکتے ہیں
ان عباؤں کی چِلمنوں کا ہٹاؤ
سب کے خنجر شناخت کرتے ہیں
آمدِ صُبح کے لیے ان کے
جنگ ہو گی تو آخری ہو گی
سُن لیں شب کے مجاورانِ کرام
اب یہاں صرف روشنی ہو گی
حسن حمیدی
No comments:
Post a Comment