تیرے قتل کے بعد شاہ کے وفاداروں نے
مجھے نعروں کے وعدوں کے ہار پہناٸے
میں پھٹے پیرہن ننگے پاؤں تجھ سے جڑی آس لیے
اک مست قلندر روٹی کپڑا اور مکان کی پیاس لیے
تیرے بھروسے چل نکلا تھا
دیکھ زرا رہبر سارے راہزن نکلے
مصلحتوں کے عیار بیٹے تِرے لہو سے منہ موڑ گٸے
سب ہی وعدے تیرے مجھ سے تھے یونہی توڑ گٸے
مجھے کہتے ہیں، ماں! تمہارا خون جمہور کے نام ہے
دلاسہ دیتے ہیں مجھے؛ جمہوریت بہترین انتقام ہے
یہ درسِ مصلحت کہو تم ہی کیا تیرا ہے؟
جبر پہ ہو خاموش، رستہ یہی کیا تیرا ہے؟
عاصم غزن
No comments:
Post a Comment