آدم کو آدمیّت کا ساز بیچتا ہوں
گر سُن سکو تو میں بھی آواز بیچتا ہوں
میں صوفی و مُلّا، نہ کوئی عالِم و عامِل
کافِر ہوں، کُفرِ عشق کے انداز بیچتا ہوں
وہ جوہرِ کامِل پوشیدہ ہے تجھی میں
سمجھو اگر تو میں خودی کا راز بیچتا ہوں
گہرائیوں سے ڈُھونڈ کر اونچائیاں لاتا ہوں اور
کُوزے میں بھر کے بحر کے اعجاز بیچتا ہوں
او سُننے والے سُن ذرا مجھ سے بھی کر سوداگری
میں کرگسوں کے بدلے شہباز بیچتا ہوں
مسجُودِ ملائک ہے مسجُود کا لبادہ
مسجد کے نمازی کو نماز بیچتا ہوں
میرے پاس جو گوہر ہیں تمہاری ہی امانت ہیں
میں تم کو تمہارے ہی الفاظ بیچتا ہوں
میں مسلکِ انسان کا ہوں پیروکار اے دوست
تفریق کے جھگڑوں سے بے نیاز بیچتا ہوں
محمد کامران
No comments:
Post a Comment