عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
رابطہ فکر و عمل میں جہاں کم پاتا ہے
ذہن رہ رہ کے مدینے کی طرف جاتا ہے
جب بھی مہجورئ طیبہ کا خیال آتا ہے
ایک کانٹا مِرے احساس میں چُبھ جاتا ہے
آپؐ کا ذکر ہے رکھتا ہے تر و تازہ ہمیں
یہی مُستقبل تاباں کا خبر لاتا ہے
جذبۂ شوقِ سفر میں ہی کمی ہے ورنہ
کون زنجیر مِرے ٭پانؤ میں پہناتا ہے
روزوشب وہ ہوں کہ آقاؐ کی نگاہوں میں رہو
انؐ سے نسبت کا تقاضا مجھے سمجھاتا ہے
چودہ سو سال سے دُہراتا ہے خود کو پیہم
وہی پیغام؛ جو آفاق کو مہکاتا ہے
یہ یقیں سیرتِ سرکارؐ سے پایا ہے رباب
یہی راتوں میں مِری فکر کو چمکاتا ہے
رباب رشیدی
٭پانؤ؛ پاؤں
No comments:
Post a Comment