عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ کیوں آرائشیں کرتا خُدا دُنیا کے ساماں میں
تمہیں دُولہا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں
یہ رنگینی یہ شادابی کہاں گُلزارِ رِضواں میں
ہزاروں جنتیں آ کر بسی ہیں کُوئے جاناں میں
خزاں کا کس طرح ہو دخل جنت کے گُلستاں میں
بہاریں بس چکی ہیں جلوۂ رنگینِ جاناں میں
تم آئے روشنی پھیلی ہُوا دن کُھل گئی آنکھیں
اندھیرا سا اندھیرا چھا رہا تھا بزمِ اِمکاں میں
تھکا ماندہ وہ ہے جو پاؤں اپنے توڑ کر بیٹھا
وہی پہنچا ہُوا ٹھہرا جو پہنچا کُوئے جاناں میں
تمہارا کلمہ پڑھتا اُٹھے تم پر صدقے ہونے کو
جو پائے پاک سے ٹھوکر لگا دو جسمِ بے جاں میں
عجب انداز سے محبوبِ حقﷺ نے جلوہ فرمایا
سُرور آنکھوں میں آیاُ جان دل میںُ نُور ایماں میں
فدائے خار ہائے دشتِ طیبہ پُھول جنت کے
یہ وہ کانٹے ہیں جن کو خود جگہ دیں گُل رگِ جاں میں
ہر اک کی آرزُو ہے پہلے مجھ کو ذبح فرمائیں
تماشا کر رہے ہیں مرنے والے عیدِ قُرباں میں
ظہورِ پاک سے پہلے بھی صدقے تھے نبیِ تم پر
تمہارے نام ہی کی روشنی تھی بزمِ خُوباں میں
کلیم آسا نہ کیونکر غش ہو اُن کے دیکھنے والے
نظر آتے ہیں جلوے طُور کے رُخسارِ تاباں میں
ہوا بدلی، گِھرے بادل، کِھلے گُل، بُلبلیں چہکیں
تم آئے یا بہارِ جاں فزا آئی گُلستاں میں
کسی کو زندگی اپنی نہ ہوتی اس قدر میٹھی
مگر دھوون تمہارے پاؤں کا ہے شیرۂ جاں میں
اُسے قسمت نے اُس کے جیتے جی جنت میں پہنچایا
جو دم لینے کو بیٹھا سایۂ دیوارِ جاناں میں
کیا پروانوں کو بُلبل نِرالی شمع لائے تم
گِرے پڑتے تھے جو آتش پہ وہ پہنچے گُلستاں میں
نسیمِ طیبہ سے بھی شمع گُل ہو جائے لیکن یوں
کہ گُلشن پُھولیں جنت لہلہا اُٹھے چراغاں میں
اگر دُودِ چراغ بزمِ شہﷺ چُھو جائے کاجل سے
شبِ قدرِ تجلّی کا ہو سُرمہ چشمِ خُوباں میں
کرم فرمائے گر باغِ مدینہ کی ہوا کچھ بھی
گُل جنت نکل آئیں ابھی سروِ چراغاں میں
چمن کیونکر نہ مہکیں بُلبلیں کیونکر نہ عاشق ہوں
تمہارا جلوۂ رنگیں بھرا پُھولوں نے داماں میں
اگر دُودِ چراغِ بزم والا مَس کرے کچھ بھی
شمیمِ مُشک بس جائے گُل شمعِ شبستاں میں
یہاں کے سنگریزوں سے حسن کیا لعل کو نسبت
یہ اُن کی راہگزر میں ہیں وہ پتھر ہے بدخشاں میں
حسن رضا بریلوی
No comments:
Post a Comment