Saturday, 16 December 2023

مرا نشیمن بکھر نہ جائے ہوا قیامت کی چل رہی ہے

 مِرا نشیمن بکھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

جو خواب زندہ ہے مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نہ جانے کیوں اِضطرار سا ہے، ہر اِک پَل بے قرار سا ہے

یہ خوف دل میں اُتر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

عجب سی ساعت ہے آج سر پر، کہ آنچ آئی ہوئی ہے گھر پر

دُعا کہیں بے اثر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ سجدہ گاہیں یہ فرش و منبر، جو ہیں ہمارے ہی خون سے تر

لہُو کی یہ رُت ٹھہر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

یہ کِن دُکھوں میں سُلگ رہے ہیں، دماغ بارُود لگ رہے ہیں

رَگوں میں یہ زہر بھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رُتوں کے تیور نہیں ہیں اچھے، بدل چکے دوستوں کے لہجے

یہ سَیلِ نفرت بِپھر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

نشانِ منزل تو ہے فروزاں، مگر ہم ایسے مُسافروں کی

کہیں اُسی پر نظر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

رفاقتوں کا خیال رکھنا، دِلوں کو پیہم سنبھال رکھنا

بِچھڑ کوئی ہمسفر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے

سدا مُقدم ہے تیری حُرمت، مِرے وطن! تُو رہے سلامت

وفا کا احساس مر نہ جائے، ہوا قیامت کی چل رہی ہے


شاہدہ حسن

No comments:

Post a Comment