سحر کا اُجالا ابھی دُور ہے
اندھیروں کی یورش بدستور ہے
برستے ہیں ہر روز بادل یہاں
بپھرنا ہواؤں کا دستور ہے
کسک ہے وہ دل میں جو مٹتی نہیں
یقیناً کوئی زخم ناسُور ہے
کہاں جائیں اہلِ جنوں یہ بتا
"زمیں سخت ہے آسماں دُور ہے"
خُدائے سخن کا مُقلد ہوں میں
غزل اس لیے اتنی مشہور ہے
اے عزیز
عبدالعزیز
No comments:
Post a Comment