فرقِ فِطرت پہ چمکتا ہے گُہر کیا کہیے
اس اندھیرے کے مسافر کا سفر کیا کہیے
ایک ذرّے کا ہے اعجازِ اثر کیا کہیے
سیپ کے بطن میں پلتا ہے گہر کیا کہیے
وقت، حالات، مقدّر کی شکایت کیسی؟
اپنا انداز ہے خود زیر و زبر کیا کہیے
رہ نوردی کے لیے کوئی خیاباں کیوں ہو
سینہ کوبی کے لیے زخمِ جگر کیا کہیے
شیشہ پتھر پہ گِرا، ٹُوٹ گیا، دل دھڑ کا
ایسے حالات میں بے خوف و خطر کیا کہیے
درد! تنہائی میں ہمدرد، نہ کوئی مونس
ایسے حالات میں احوالِ دِگر کیا کہیے
حسن امام درد
No comments:
Post a Comment