Tuesday, 7 October 2025

کوئی اس شہر میں غارت گر جاں ہے کہ نہیں

 کوئی اس شہر میں غارت گرِ جاں ہے کہ نہیں 

جاں نثاروں کا ٹھکانہ بھی یہاں ہے کہ نہیں 

باغ برگِ گل و لالہ ہوا تو ہے، مگر

عہد گُلگشت مِرا چرغ رواں ہے کہ نہیں

خلد میں سب ہے مگر اپنے بھٹکنے کے لیے 

وادئ وسوسہ و وہم و گماں ہے کہ نہیں

اے جوانانِ عرب، ترک و ستارانِ عجم

قیس و فرہاد تم میں جواں ہے کہ نہیں

تیرا بیمار دل اب بارِ جوانی ہے دوست

عاشقی طرز سر تہذیب یہاں ہے کہ نہیں


طفیل احمد جمالی

 

یوٹیوب پہ خورشید عبداللہ کے چینل پہ طفیل احمد جمالی کے اس آڈیو کلپ کو بڑی مشکل سے کئی بار سننے کے بعد بھی میں سمجھتا ہوں کہ میں اس غزل کے اصل متن کے ساتھ شاید انصاف نہیں کر پایا کیونکہ آڈیو کوالٹی بہتر نہیں تھی۔ اس غزل کا کریڈٹ بہرحال خورشید عبداللہ جی کو جاتا ہے۔


No comments:

Post a Comment