Sunday, 5 October 2025

وہ جو موسم گرما کی پہلی بارش کا چھینٹا تھا

 وہ جو موسم گرما کی پہلی بارش کا چھینٹا تھا

تپ والے آنگن میں سوندھی خوشبو بن کر بکھرا تھا

اس کی بابت پہروں سوچتے رہنا اچھا لگتا تھا

بات کوئی بھی یاد نہیں ہاں لہجہ دھڑکن جیسا تھا

ہم نے کب جھولے ڈالے تھے ہم نے کب پینگیں لی تھیں

پیڑ کی سب شاخوں پہ زمانے کی آنکھوں کا پہرا تھا

ہم محتاط بہت تھے پھر کیوں ایسے در پر دستک دی

جس کے گھرانے کی ہر پگڑی کا ہر شملہ اونچا تھا

نذر کیا ہر شاہجہاں نے ہر ممتاز کو تاج محل

دل کا راج سنگھاسن دینا دل والوں کا خاصا تھا

ہاتھ میں اس کا ہاتھ نہیں زنجیر ہے گزرے لمحوں کی

بجلی چمکی برکھا برسی کل قصہ دو پل کا تھا

عشق کیا یا ریت نبھائی کیسے بتائیں کیا بیتی

آنکھوں میں اک سیل بلا اور دل میں تپتا صحرا تھا

بابل کا آنگن ساجن کا دوار پرائے تھے دونوں

کون سی چوکھٹ عورت کی تھی کون سا امبر اس کا تھا

کوئی اگر پوچھے کہہ دینا طلعت یہ بھی بھول گئے

جس کارن ہم خود کو بھولے وہ منموہن کیسا تھا


طلعت اشارت

No comments:

Post a Comment