وہ جو موسم گرما کی پہلی بارش کا چھینٹا تھا
تپ والے آنگن میں سوندھی خوشبو بن کر بکھرا تھا
اس کی بابت پہروں سوچتے رہنا اچھا لگتا تھا
بات کوئی بھی یاد نہیں ہاں لہجہ دھڑکن جیسا تھا
ہم نے کب جھولے ڈالے تھے ہم نے کب پینگیں لی تھیں
پیڑ کی سب شاخوں پہ زمانے کی آنکھوں کا پہرا تھا
ہم محتاط بہت تھے پھر کیوں ایسے در پر دستک دی
جس کے گھرانے کی ہر پگڑی کا ہر شملہ اونچا تھا
نذر کیا ہر شاہجہاں نے ہر ممتاز کو تاج محل
دل کا راج سنگھاسن دینا دل والوں کا خاصا تھا
ہاتھ میں اس کا ہاتھ نہیں زنجیر ہے گزرے لمحوں کی
بجلی چمکی برکھا برسی کل قصہ دو پل کا تھا
عشق کیا یا ریت نبھائی کیسے بتائیں کیا بیتی
آنکھوں میں اک سیل بلا اور دل میں تپتا صحرا تھا
بابل کا آنگن ساجن کا دوار پرائے تھے دونوں
کون سی چوکھٹ عورت کی تھی کون سا امبر اس کا تھا
کوئی اگر پوچھے کہہ دینا طلعت یہ بھی بھول گئے
جس کارن ہم خود کو بھولے وہ منموہن کیسا تھا
طلعت اشارت
No comments:
Post a Comment