یہ عالم اب دھویں کا کارخانہ لگ رہا ہے
براہ راست سانسوں پر نشانہ لگ رہا ہے
ہمارے عہد کی حیوانیت کا سرخ قصہ
قرون جاہلیت کا فسانہ لگ رہا ہے
چراغوں کو مہیا کیجئے سورج پناہی
ہواؤں کا رویہ جارحانہ لگ رہا ہے
ترا ممنون ہوں اے جذبۂ صحرا نوردی
سلگتی ریت کا منظر سہانا لگ رہا ہے
ہماری وضع داری کو سراہو چارہ سازو
نیا زخم تعلق بھی پرانا لگ رہا ہے
ہم اپنے سبز و نم اسلوب کے مارے ہوئے ہیں
نیا لہجہ بھی اب ہم کو پرانا لگ رہا ہے
کسی آہنگ نو کی جستجو میں ہے مسلسل
یہ میرا دل جو بے طبل و ترانہ لگ رہا ہے
ہزاروں صورتیں ہیں منعکس چہرہ بہ چہرہ
مکان شش جہت آئینہ خانہ لگ رہا ہے
ہمیں درکار ہے اک دوسرے کا کاسۂ سر
بظاہر ہم میں گہرا دوستانہ لگ رہا ہے
زمیں کی گہری خاموشی نہیں بے وجہ جوہر
زمیں میں دفن رازوں کا خزانہ لگ رہا ہے
مسرور جوہر
No comments:
Post a Comment