Sunday, 5 October 2025

یہ عالم اب دھویں کا کارخانہ لگ رہا ہے

 یہ عالم اب دھویں کا کارخانہ لگ رہا ہے

براہ راست سانسوں پر نشانہ لگ رہا ہے

ہمارے عہد کی حیوانیت کا سرخ قصہ

قرون جاہلیت کا فسانہ لگ رہا ہے

چراغوں کو مہیا کیجئے سورج پناہی

ہواؤں کا رویہ جارحانہ لگ رہا ہے

ترا ممنون ہوں اے جذبۂ صحرا نوردی

سلگتی ریت کا منظر سہانا لگ رہا ہے

ہماری وضع داری کو سراہو چارہ سازو

نیا زخم تعلق بھی پرانا لگ رہا ہے

ہم اپنے سبز و نم اسلوب کے مارے ہوئے ہیں

نیا لہجہ بھی اب ہم کو پرانا لگ رہا ہے

کسی آہنگ نو کی جستجو میں ہے مسلسل

یہ میرا دل جو بے طبل و ترانہ لگ رہا ہے

ہزاروں صورتیں ہیں منعکس چہرہ بہ چہرہ

مکان شش جہت آئینہ خانہ لگ رہا ہے

ہمیں درکار ہے اک دوسرے کا کاسۂ سر

بظاہر ہم میں گہرا دوستانہ لگ رہا ہے

زمیں کی گہری خاموشی نہیں بے وجہ جوہر

زمیں میں دفن رازوں کا خزانہ لگ رہا ہے


مسرور جوہر

No comments:

Post a Comment