خاموشی تری چیخ سے یہ بھید کھلا ہے
سناٹے سے بھی لپٹی ہوئی کوئی صدا ہے
اے ذوق نظر! دیکھ ترے سامنے کیا ہے
کہنہ ہی سہی آنکھ پہ منظر تو نیا ہے
وہ چاند نہ نکلا تو ستارے بھی تھے گم صم
سورج بھی بہت دیر سے بیدار ہوا ہے
چل تجھ کو لیے جاتا ہوں دکھلانے سمندر
دریا مِری کشتی میں جو تو بیٹھ گیا ہے
واجب ہے اسے چوم کے آنکھوں سے لگاؤں
اک حرف جو تسبیح محبت سے گرا ہے
منزل سے کبھی میری شناسائی نہیں تھی
رستہ ہی مِرا یار تھا جو روٹھ گیا ہے
چرچا ہے بہت شہر میں جس موج نمو کا
وہ خواب مِری آنکھ سے ہی ٹپکا ہوا ہے
اے صورت مہتاب!🌕 تِرا ہاتھ بھی آخر
لہروں کی روانی میں کہیں چھوٹ گیا ہے
فیصل طفیل
No comments:
Post a Comment