Saturday, 4 October 2025

صبح کے اجلے جزیروں پہ بھی طاری ہوئی شام

 صبح کے اجلے جزیروں پہ بھی طاری ہوئی شام

سہمے سہمے ہیں مناظر کہ شکاری ہوئی شام

ہر طرف روشنی و رنگ کا رقص پیہم

یاد آتی ہے تِرے ساتھ گزاری ہوئی شام

جم گئیں گہری اداسی کی تہیں پلکوں پر

اوڑھ کے تیرا خیال اور بھی بھاری ہوئی شام

کھو گئے جانے کہاں سرد ہواؤں کے ستار

مستی و کیف کے احساس سے عاری ہوئی شام

عمر بھر دھوپ کی پوشش رہی خودداری پر

ہم نے پہنی نہ حریفوں کی اتاری ہوئی شام

آخرش ڈوب گئی اپنے ہی سناٹوں میں

میری پر شور تمناؤں سے ہاری ہوئی شام

دوستو ہم کو تمہاری سبھی شرطیں منظور

تم اگر صبح کے طالب ہو ہماری ہوئی شام

میر و غالب ہوئے حسرت ہوئے یا فیض و فراق

سب غزل والوں پہ سو جان سے واری ہوئی شام

ایک ہم ہی بسر و چشم فدا تھے اس پر

جوہر اب جائے کہاں ہجر کی ماری ہوئی شام


مسرور جوہر

No comments:

Post a Comment