صبح کے اجلے جزیروں پہ بھی طاری ہوئی شام
سہمے سہمے ہیں مناظر کہ شکاری ہوئی شام
ہر طرف روشنی و رنگ کا رقص پیہم
یاد آتی ہے تِرے ساتھ گزاری ہوئی شام
جم گئیں گہری اداسی کی تہیں پلکوں پر
اوڑھ کے تیرا خیال اور بھی بھاری ہوئی شام
کھو گئے جانے کہاں سرد ہواؤں کے ستار
مستی و کیف کے احساس سے عاری ہوئی شام
عمر بھر دھوپ کی پوشش رہی خودداری پر
ہم نے پہنی نہ حریفوں کی اتاری ہوئی شام
آخرش ڈوب گئی اپنے ہی سناٹوں میں
میری پر شور تمناؤں سے ہاری ہوئی شام
دوستو ہم کو تمہاری سبھی شرطیں منظور
تم اگر صبح کے طالب ہو ہماری ہوئی شام
میر و غالب ہوئے حسرت ہوئے یا فیض و فراق
سب غزل والوں پہ سو جان سے واری ہوئی شام
ایک ہم ہی بسر و چشم فدا تھے اس پر
جوہر اب جائے کہاں ہجر کی ماری ہوئی شام
مسرور جوہر
No comments:
Post a Comment